Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”طبیعت ٹھیک ہے آپ کی بیٹا؟“ مذنہ اس کے پاس آئی تھیں وہ لان میں بیٹھا تھا۔

”یس! میں ٹھیک ہوں۔“ وہ مسکرایا۔

”پھر کھانا کیوں نہیں کھایا ہے؟“

”موڈ ہی نہیں ہو رہا تھا اور آپ جانتی ہیں کہ میں موڈ سے ہی ہر کام کرتا ہوں۔“

”جانتی ہوں لیکن آپ کے ڈیڈی کو یہ سب پسند نہیں ہے وہ اپنی ڈسپلن کو فالو کرتے ہیں اور میں دیکھ رہی ہوں  ان چند دنوں میں آپ میں مینرز ختم ہو رہے ہیں۔
“ وہ نرم لہجے میں سرزنش کر رہی تھیں۔

”سوری ممی! کبھی کبھی ایسا چلتا ہے۔“

”کبھی بھی نہیں چلتا ہے  آپ کے ڈیڈی آنے والے ہیں اور ان کے آنے سے پہلے آپ سب یاد کر لیں تو بہتر ہے۔“

”اوکے ممی! تھینکس  آپ فکر مت کریں۔“ وہ سمجھا کر چلی گئی تھیں اور وہ پھر سے معید کی باتوں میں گم ہونے لگا تھا  اس نے معید کو دو ٹوک جواب دے دیا تھا مگر خود کو پھر بھی شرمندہ محسوس کر رہا تھا۔
(جاری ہے)

معید کو اس طرح جواب نہیں دینا چاہئے تھا  ٹھیک ہے تم نے کسی لڑکی کو آئیڈیل نہیں بنایا مگر تمہاری فرینڈز تو بے شمار لڑکیاں رہی ہیں۔

پری کے ذکر پر تمہارا اس طرح متردد ہو جانا کیا معنی رکھتا ہے  تم اس کو پسند نہیں کرتے؟

اس کے اندر سے سوال ابھرا تھا۔

”نہیں کرتے تو کیوں کرتے ہو؟ جب تمہارا آئیڈیل کوئی لڑکی نہیں ہے  تمہاری زندگی میں آنے والی ہر لڑکی کسی خصوصیت کی حامل نہیں ہے تو پھر پری ہی کیوں وہ لڑکی نہیں ہو سکتی  جو تمہاری لائف پارٹنر بن سکے۔

”لائف پارٹنر اور وہ بھی پری! جو ایک نگاہ مجھ پر عنایت کی ڈالنے پر رضا مند نہیں ہے  جو بات بھی کرتی ہے تو لگتا ہے انگارے چبا رہی ہو۔“ وہ سوچوں میں گم تھا جب فیاض صاحب کی کار اندر داخل ہوئی تھی اور وہ اتر کر اس کی طرف چلے آئے تھے۔

”السلام علیکم انکل!“ وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔

”اینی پرابلم؟ آپ ابھی تک جاگ رہے ہیں۔“ وہ قریب آ کر فکر مند سے گویا ہوئے تھے۔

”نیند نہیں آ رہی تھی میں نے سوچا واک کر لی جائے۔“

”نیند کیوں نہیں آ رہی کوئی پرابلم ہے کیا بیٹا!“

”نہیں انکل! ایسی کوئی بات نہیں ہے کوئی پرابلم نہیں ہے۔“ وہ ان کو مطمئن کرکے اپنے کمرے میں چلا آیا تھا اور پھر ساری رات سوتے جاگتے سپنوں میں گزری تھی۔

###

سر کا بھاری پن دوسرے دن بھی دور نہیں ہوا تھا  وہ خاموشی سے اپنے کام کرتی رہی تھی  دادی نے بھی کئی بار ڈاکٹر کے پاس جانے کا کہا اور جب وہ نہیں مانی تو چپ ہو کر بیٹھ گئی تھیں۔

”پری! کیا ہوا منہ پر بارہ کیوں بج رہے ہیں تمہارے؟“ عادلہ سے رہا نہ گیا تھا وہ کچھ نہیں بولی تھی۔ ”طغرل بھائی سے لڑائی ہو گئی ہے کیا؟ وہ بھی تمہاری طرح موڈ آف کرکے گھوم رہے ہیں؟“

”ان کا مجھ سے کیا تعلق  تم کیوں میرا نام ان کے ساتھ لیتی ہو؟ تمہارا دماغ چل گیا ہے کیا؟“ وہ شدید غصے سے اس سے بولی تھی۔

”میرا دماغ کیوں چلے گا جو صحیح ہے وہ بول رہی ہوں میں۔
ہمارے سامنے تم دونوں لڑنے کا ڈراما کرتے ہو ویسے ایک دوسرے کے ساتھ گھومتے پھرتے ہو اور سمجھتے ہو کسی کو معلوم نہیں ہے۔“ وہ جل کر بولی تھی اور اسی دم قدموں کی چاپ ابھری تھی  ان دونوں نے ہی چونک کر دیکھا تھا۔

طغرل بلو جینز اور وائٹ شرٹ میں اندر آیا تھا۔

”تم ٹھیک کہہ رہی ہو عادلہ!“

”اب تم کو ہماری نگرانی کی زحمت اٹھانی نہیں پڑے گی۔
میں پارس کو پرپوز کر رہا ہوں۔“

###

دکھ میں غم میں‘ تھکی ہوئی ہوں‘ پاؤں میں چھالے ہیں

ماں! کچھ دیر تیری گود میں سر رکھ کر سوجاؤں میں

جب بھی ساون کے بادل برسائیں‘ ڈھیروں اداسی

اتنا برسیں آنکھیں کہ ساون کو بھگو جاؤں میں

طغرل کی آواز اس خاموش ماحول میں کسی دھماکے کی طرح گونج اٹھی تھی  وہ دونوں اس کی طرف دیکھتی رہ گئی تھیں اور وہ بڑے اطمینان سے کھڑا پری کی طرف دیکھ رہا تھا۔

جس کے چہرے پر تیزی سے سرخی پھیل رہی تھی  آنکھوں میں ناگواری پھیلتی جا رہی تھی۔ اس نے ہاتھ میں پکڑا وائپر دور پھینکا تھا۔

”آپ کیا بکواس کر رہے ہیں آپ کو معلوم ہے…؟“

”ہاں! مگر یہ بکواس نہیں ہے میرے دل کی بات ہے۔“ وہ اس طرح ہی اطمینان سے بولا۔

جب کہ وہاں موجود عادلہ کئی لمحوں تک گم سم کھڑی رہی تھی  اس کے دل میں طغرل کی بات نے آگ سی لگا دی تھی۔
اس نے اس کی بے رخی اور سرد مہری کے باوجود اپنے خیالوں میں اس کو بسایا تھا اور وہ بڑے فخر سے اس کے سامنے اس لڑکی کو پرپوز کر رہا تھا جو اس سے سخت بے زار تھی  نفرت کرتی تھی  پورا کچن گول گول گھومنے لگا تھا  اس کی نظروں کے سامنے اور وہ لڑکھڑاتے قدموں سے وہاں سے چلی گئی تھی۔

”دل کی بات؟“ وہ اس کی طرف دیکھتی ہوئی استہزائیہ لہجے میں گویا ہوئی تھی  اس کے چہرے پر اذیت سی تھی۔

”معید بھائی نے آپ کو فورس کیا اور آپ تیار ہو گئے ترس کھا کر مجھ سے شادی کرنے کیلئے…“ اس کی آواز دکھ کے ساتھ ساتھ غم و غصے سے لرز رہی تھی۔

”وہاٹ!“ اس کے منہ سے نکلنے والی سچائی نے لمحے بھر کو طغرل کے حواس گم کر دیئے تھے کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا پری وہ بات جانتی ہے جو ان دونوں کے علاوہ کسی کو بھی معلوم نہی تھی وہ دم بخود سا کھڑا رہ گیا تھا۔

”یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟“ چند لمحے لگے تھے اسے خود پر قابو پانے میں۔ ”میں بھلا تم سے کیوں ترس کھا کر شادی کروں گا؟ تم میں ترس کھانے والی کون سی ابنارملیٹی ہے پارس؟“

”مجھے میں ایسی اسپیشلیٹی بھی نہیں ہے جس سے انسپائیر ہو کر آپ شادی کیلئے تیار ہو جائیں۔“

اس کی بات طغرل کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر گئی تھی۔

”میں سیریس ہوں طغرل بھائی!“ اس کی مسکراہٹ چڑانے لگی تھی۔

”میں بھی سیریس ہوں پارس! مجھے نہیں معلوم تھا تم نے ہماری باتیں سن لی ہیں۔ میں بالکل سچائی سے کہہ رہا ہوں  جب معید نے مجھے کہا کہ تم کو پرپوز کروں تو اس وقت میں نے اسے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ میں ابھی اپنے بزنس میں الجھا ہوا ہوں  دراصل میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتا تھا  ڈیڈی کی سپورٹ نہیں لینا چاہتا میں…“

”آپ کیا چاہتے ہیں اور کیا نہیں  مجھے اس میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے۔
“ وہ اس کی بات قطع کرکے گویا ہوئی۔ ”میں آپ سے شادی نہیں کروں گی  یہ یاد رکھئے گا۔“

”تمہاری کہیں کمٹمنٹ ہے؟“ وہ خاصا سنجیدہ تھا۔

”میں بتانا ضروری نہیں سمجھتی لیکن یہ یاد رکھئے گا میں ایسے کسی بھی شخص سے شادی نہیں کروں گی  جو ترس کھا کر مجھے اپنی زندگی میں شامل کرے۔“ وہ کہہ کر چلی گئی اور وہ بڑبڑانے لگا۔

”ترس کھا کر کسی کی مدد تو کی جا سکتی ہے مگر شادی نہیں کی جا سکتی ہے۔

###

عادلہ کو حسد کی ان دیکھی آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا  وہ بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں آئی اور بیڈ پر لیٹ کر رونے لگی۔

”روتے ہیں چھم چھم نین اجڑ گیا چین رے

دیکھ لیا تیرا پیار‘ ہائے دیکھ لیا

عائزہ جو اس کمرے میں موجود تھی جب خاصی دیر تک اس نے عادلہ کو اسی انداز میں روتے ہوئے دیکھا تو وہ گنگنانے لگی تھی۔

”تم! بھونکنا بند کرو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔“ عائز کی استہزائیہ گنگناہٹ نے اس کو تڑپ کر اٹھنے پر مجبور کر دیا تھا۔

”ہا ہا ہا… تم سے برا اب بھی کوئی نہیں ہے مائی سسٹر!“

”کیسی بہن ہو تم عائزہ! اپنی بہن کو روتے ہوئے دیکھ کر تم خوش ہو رہی ہو  ہنس رہی ہو؟“

”تو کیا کروں  تم نے کب مجھے اپنے بہن سمجھا ہے  ہمیشہ میرے خلاف رہی ہو میری پریشانیوں پر خوش ہوتی رہی ہو۔
“ عائزہ اس کے قریب بیٹھ کر سنجیدگی سے گویا ہوئی۔

”تمہاری حرکتیں بھی ایسی ہیں  ایک لڑکے کے چکر میں تم ہم سب سے باغی ہو چکی ہو  محبت نے تمہارا دماغ خراب کر دیا ہے۔“

”تم کیوں رو رہی ہو؟“ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی گویا ہوئی۔

”طغرل کی محبت میں۔“

”تم اس گھٹیا شخص کی محبت میں مت روؤ… اس کے بیڈ روم میں جا کر اس کو لبھانے کی سعی کرو وغیرہ وغیرہ  یہ سب کام تمہارے جائز ہیں؟“

”عائزہ! چپ ہو جاؤ  میرے زخموں پر نمک پاشی مت کرو  میں پہلے ہی اذیت میں مبتلا ہوں  بہت برا ہوا ہے میرے ساتھ۔
“ عائزہ نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر تسلی دینے والے انداز میں کہا۔

”کیا بات ہوئی ہے؟ تم بے حد اپ سیٹ لگ رہی ہو؟“ وہ کچھ دیر تک عائزہ کے شانے سے لگ کر روتی رہی اور وہ اس کو بڑے پیار سے تھپکتی رہی پھر جیسے جیسے اس کو سکون ملتا رہا وہ خاموش ہو گئی۔

”کیا ہوا عادلہ! کیوں رو رہی تھیں تم؟“

”تم جانتی ہو نا کہ میں طغرل سے کتنی محبت کرتی ہوں  کتنا چاہتی ہوں  میں اس کو اس وقت سے چاہتی ہوں جب وہ پاکستان آیا بھی نہیں تھا۔

”ہاں معلوم ہے مجھے  جانتی ہوں میں لیکن اب ایسا کیا ہوا ہے جو تم بالکل ہی حوصلہ ہار بیٹھی ہو؟“

”اس نے پری کو پرپوز کیا ہے  اس پری کو جو اس کو جوتی کی نوک پر رکھتی ہے ایک ٹکے کی عزت نہیں ہے جس کی نگاہوں میں طغرل کی۔ وہ اس کو چاہتا ہے اس سے شادی کرنے کیلئے مرا جا رہا ہے۔“ وہ کہتی چلی گئی اس وقت اس کو عائزہ ہی اپنے جلے ہوئے دل پر مرہم رکھنے والی مسیحا لگ رہی تھی۔

”مجھے معلوم تھا ایسا ہی ہوگا ایک دن۔ طغرل کو تم نیک نہیں سمجھو  نامعلوم کیا کیا گل کھلا کر آیا ہے آسٹریلیا میں  اپنے ملک میں آکر سب ہی نیک و پارسا بن جاتے ہیں اور یہاں آ کر دوسروں پر انگشت نمائی کرتے ہیں۔“

”اب کیا ہو گا عائزہ! ان دونوں کی شادی ہو جائے گی اور میں منہ تکتی رہ جاؤں گی۔“ عادلہ کے انداز میں بے چینی تھی جب کہ عائزہ کسی گہری سوچ میں گم تھی۔

   2
0 Comments